آہ یہ خوش گوار نظارے !
ساملی کیا ہے اک پہاڑی ہے
خوبصورت، بلند اور شاداب
اس کی چیں بر جبیں چٹانوں پر
رقص کرتے ہیں سایہ ہائے سحاب
اس کی خاموش وادیاں، یعنی
ایک سویا ہوا جہانِ شباب
اس کی سقفِ بلند کے آگے
آسماں ایک سرنگوں محراب
شام کے وقت کوہ کا منظر
جیسے بھولا ہوا طلسمی خواب
جھومتے ، ناچتے ہوئے چشمے
پھوٹتا، پھیلتا ہوا سیماب
دوب کی رینگتی ہوئی بیلیں
پتھروں سے پٹے ہوئے تالاب
آہ یہ خوش گوار نظارے
خلد کے شاہکار نظارے
چیل کے اف یہ بے شمار درخت
اور یہ ان کی عنبریں بو باس
سنبلیں کونپلوں سے چھنتے ہوئے
یہ نسیمِ شمال کے انفاس
سایہ ہائے دراز کے نیچے
سرنگوں جھاڑیوں کا خوف و ہراس
چیل کی چوٹیوں پہ صبح کے وقت
سبز پتوں کا زرنگار لباس
یہ دھواں جھونپڑوں سے اٹھتا ہوا
کوہ کے اس طرف افق کے پاس
یہ برستی ہوئی گھٹا کا سماں
قلبِ شاعر پہ بارشِ احساس
آہ یہ خوش گوار نظارے
خلد کے شاہکار نظارے
مرغزاروں میں تا بحدِ نظر
لطف افزا فضا مہکتی ہوئی
شب کو دہقاں کے تنگ جھونپڑے سے
سرخ سی روشنی جھلکتی ہوئی
ابر میں کوندتی ہوئی بجلی
دامنِ آتشیں جھٹکتی ہوئی
کوہ کی سربلند چوٹی سے
اک نئی تازگی ٹپکتی ہوئی
آہ یہ خوش گوار نظارے
خلد کے شاہکار نظارے
وادیوں کا ہر ایک خارِ حقیر
امتدادِ زمانہ کی تصویر
قدسیوں کی ادائے کج نگہی
صبح کے آفتاب کی تنویر
جلوہ ہائے شفق کی عریانی
ایک رنگین خواب کی تعبیر
زمہریری ہوا کے جھونکوں سے
ڈبڈبائی ہوئی سی چشمِ اثیر
آہ یہ خوش گوار نظارے
خلد کے شاہکار نظارے
چاہتا ہوں کہ اپنی ہستی کو
سرمدی کیف میں ڈبو جاؤں
چاہتا ہوں کہ ان فضاؤں کی
وسعتِ بیکراں میں کھو جاؤں
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں
جذب ہو جاؤں، جذب ہو جاؤں
آہ یہ خوش گوار نظارے
خلد کے شاہکار نظارے