محبوبِ خدا سے

مجید امجد


نوبہارِ گلستانِ معرفت
یعنی اے روح و روان معرفت
تیرے دل میں جلوۂ ربِ جمیل
تیری محفل میں سرودِ جبرئیل
اہتمام و اہتزازِ کائنات
تیری اک ادنیٰ نگاہِ التفات
قرب یابِ درگہِ یزداں ہے تو
ساقیِ خم خانۂ عرفاں ہے تو
جھک رہا ہے تیرے در پر آسماں
چومتا ہے تیرے قدموں کو جہاں
ترے دم سے دل کی کلیاں کھل گئیں
بدنصیبوں کو مرادیں مل گئیں
تیری چوکھٹ پر جھکی جس کی جبیں
ہو گیا اس کے جہاں زیرِ نگیں
میں سمجھتا ہوں کہ تیری خاکپا
کیمیا ہے کیمیا ہے کیمیا
مجھ پہ گر تو لطف فرمائی کرے
بخت میرا ناز دارائی کرے
میں بھی ہوں اک بندۂ عصیاں شعار
کشتۂ جور و جفائے روزگار
میں بھی تیرا بستۂ فتراک ہوں
کس قدرغمگین ہوں غمناک ہوں
میں زمانے بھر سے ٹھکرایا گیا
میں ہر اک محفل سے اٹھوایا گیا
درگہِ عالم سے دھتکارا ہوا
بخت اور تقدیر کا مارا ہوا
اب ترے دربار میں آیا ہوں میں
دل میں لاکھوں حسرتیں لایا ہوں میں
تجھ کو میری بے کسی کا واسطہ
اپنی شان خسروی کا واسطہ
مر رہا ہوں، زندگی کا جام دے
رحمتِ جاؤید کا پیغام دے
اب زمانے میں مرا کوئی نہیں
آسرا تیرے سوا کوئی نہیں
اک فقط درد آشنا تو ہی تو ہے
میرے دل کا مدعا تو ہی تو ہے
جب ترے دربا رمیں آتا ہوں میں
جب تری سرکار میں آتا ہوں میں
عظمتِ مفقود کو پاتا ہوں میں
منزلِ مقصود کو پاتا ہوں میں
تیرے آگے ہاتھ پھیلاتا ہوں میں
جھولیاں بھر بھر کے لے جاتا ہوں میں
زندگی کی زندگی تو ہی تو ہے
روح کی تابندگی تو ہی تو ہے
میرے دل کو مہبطِ انوار کر
مجھ کو بھی بینندۂ اسرار کر
 
فہرست