حالی

مجید امجد


مسدس کا مصنف، شاعرِ جادو بیاں حالی
وہ حالی، عندلیبِ گلشنِ ہندوستاں حالی
قلم کی نوک سے جس نے ربابِ روح کو چھیڑا
حریمِ قدس کا وہ مطربِ شیریں زباں حالی
جہاں آرا نظر جس کی، رموز آگاہ دل جس کا
وہ اسرار و معارف کا محیطِ بیکراں حالی
فلک جس کو کرے سجدے ، زمیں جس کے قدم چومے
وہ حالی، ہاں وہی شخصیتِ گردوں نشاں حالی
وہی حالی جسے دانائے رازِ زندگی کہہ دیں
جسے سرمایۂ سوز و گدازِ زندگی کہہ دیں
وہ حالی چھوڑ کر جس نے کہانی بلبل و گل کی
بھلا کر قلقلِ وجد آفریں میخانۂ مل کی
نئے انداز سے چھیڑی فضائے بزمِ عالم میں
حدیثِ دل فروز اسلام کے شان و تجمل کی
وہ حالی توڑ کر جس نے طلسمِ گیسوئے پیچاں
دکھائی شان موجِ زندگانی کے تسلسل کی
وہ جس نے قصہ ہائے نرگسِ بیمار کے بدلے
سنائی داستاں اوضاعِ ملت کے تعطل کی
وہ حالی جس کے آنے سے جہاں میں انقلاب آیا
وہ جس کے شعر سے ہندوستاں میں انقلاب آیا
وہی حالی جو سوتوں کو جگانے کے لیے آیا
وہی حالی جو مردوں کو جلانے کے لیے آیا
جسے صحرائے بطحا کے حدی خوانوں نے چھیڑا تھا
نئی لے میں اسی نغمے کو گانے کے لیے آیا
وہ حالی، ہاں وہ مردِ حق جو کفرستانِ عالم میں
خدا کے نام کا ڈنکا بجانے کے لیے آیا
وہ حالی، وہ معلم مکتبِ اخلاقِ ملت کا
جو ہر انسان کو انساں بنانے کے لیے آیا
وہ حالی جو علمدارِ وقارِ زندگانی ہے
سرورِ جاؤدانی ہے ، بہارِ زندگانی ہے
وہی حالی جو اذکار و نصیحت کے لیے آیا
وہی حالی جو ارشاد و ہدایت کے لیے آیا
وہی شاعر کہ جس نے شعر کی طرزِ کہن بدلی
وہی ناقد جو تبلیغِ صداقت کے لیے آیا
وہی رہبر کہ جس نے گمرہوں کی رہنمائی کی
وہ مصلح جو فلاحِ ملک و ملت کے لیے آیا
وہ فخرِ ایشیا، مہرِ سپہرِ شاعری حالی
وہ مردِ حق جو اظہارِ حقیقت کے لیے آیا
وہ جس کے فکرِ کیف اندوز نے موتی لٹائے ہیں
وہ جس کے خامۂ سحرآفریں نے گل کھلائے ہیں
وہی حالی کہ جو آئینہ دار باکمالی ہے
نظیر بے نظیری ہے ، مثال بے مثالی ہے
وہی حالی کہ جس کی شاعری سلکِ لآلی ہے
زباں آبِ زلالی ہے ، بیاں سحرِ حلالی ہے
وہ جس کے قلب میں ہنگامۂ دردِ نہانی ہے
وہ جس کی روح میں سرمستی تخئیل عالی ہے
ہے گر قومیتِ ہندوستاں کا ترجماں کوئی
یقیں رکھو، یقیں رکھو، وہ حالی ہے ، وہ حالی ہے
اسی حالی، اسی حالی کی یہ صد سالہ برسی ہے
جبھی تو چار سو شانِ جمالی جلوہ گر سی ہے
اسی حالی، اسی حالی کا ہے یہ جشنِ صد سالہ
جبھی تو آج ہے ہندوستان کی شان دوبالا
اسے پیدا ہوئے سو سال گزرے ہیں مگر اب بھی
جسے دیکھو وہی اس کی محبت میں ہے متوالا
ابھی تک اک جہاں بے امتیاز مذہب و ملت
کلامِ حالیِ مرحوم کا ہے پوجنے والا
ابھی تک ہے وہی جس کی ضیاریزی جلوخیزی
کلامِ حالیِ مرحوم ہے وہ لولوئے لالا
کلامِ حالیِ مرحوم اک گنج معافی ہے
جو ادبیات میں اک شاہکارِ غیرفانی ہے
ابھی تک چل رہا ہے میکدے میں جام حالی کا
ابھی تک مرکزِ تقدیس ہے پیغام حالی کا
ابھی بھولے نہیں اہلِ جہاں احسان حالی کے
زمیں سے آسماں تک غلغلہ ہے عام حالی کا
اسی جانب رواں ہیں قافلے اقوام عالم کے
بڑھا جس منزلِ مقصد کی جانب گام حالی کا
ابھی تک ان فضاؤں میں ہے مضمر روح حالی کی
ابھی تک چٹکیاں لیتا ہے دل میں نام حالی کا
ابھی تک آ رہی ہے عرش سے آواز حالی کی
ابھی تک کان سنتے ہیں نوائے راز حالی کا
سپہرِ زندگی کا ضوفشاں ناہید ہے حالی
نہیں، سرمطلعِ امید کا خورشید ہے حالی
پیام ولولہ انگیز س کا مٹ نہیں سکتا
جہانِ زندگی میں زندۂ جاؤید ہے حالی
اگر اب بھی نہیں سمجھے تو لو میں برملا کہہ دوں
اجی! اک آنے والے دور کی تمہید ہے حالی
چلے گا حشر تک بزمِ جہاں میں جام حالی کا
رہے گا ثبت لوحِ کن فکاں پر نام حالی کا
 
فہرست