لہر انقلاب کی

مجید امجد


حالت بدل رہی ہے جہانِ خراب کی
لہرا رہی ہے دہر میں لہر انقلاب کی
تخریب جس کی حدت و شدت کا نام ہے
دنیا میں پھر نمود ہے اس اضطراب کی
سرمائے کے نظام کا انجام ہے قریب
اب اس کی زندگی ہے کہ ہستی حباب کی
پہنچا ہے اختتام پہ دورِ ملوکیت
حد بھی تو ہو کوئی ستم بے حساب کی
بوڑھوں کی مصلحت کو بھلا پوچھتا ہے کون
سرجوشیاں ہیں جوش پہ روحِ شباب کی
اس عہد کے جوانِ جواں عزم کے لیے
تہذیبِ نو ہے ایک تجلی سراب کی
پھر جاگ اٹھا ہے جذبۂ آزادیِ وطن
تعبیر اور کیا ہو غلامی کے خواب کی
امجد تو آنے والے تغیر کو بھانپ جا
مستقبل مہیب کی ہیبت سے کانپ جا
 
فہرست