یہی دنیا؟

مجید امجد


عشق پیتا ہے جہاں خوننابۂ دل کے ایاغ
آنسوؤں کے تیل سے جلتا ہے الفت کا چراغ
جس جگہ روٹی کے ٹکڑے کو ترستے ہیں مدام
سیم و زر کے دیوتاؤں کے سیہ قسمت غلام
جس جگہ حبِ وطن کے جذبے سے ہو کر تپاں
سولی کی رسی کو ہنس کر چومتے ہیں نوجواں
جس جگہ انسان ہے وہ پیکرِ بے عقل و ہوش
نوچ کر کھاتے ہیں جس کی بوٹیاں مذہب فروش
جس جگہ یوں جمع ہیں تہذیب کے پروردگار
جس طرح سڑتے ہوئے مردار پر مردار خوار
جس جگہ اٹھتی ہے یوں مزدور کے دل سے فغاں
فیکٹری کی چمنیوں سے جس طرح نکلے دھواں
جس جگہ سرما کی ٹھنڈی شب میں ٹھٹھرے ہونٹ سے
چومتی ہے رو کے بیوہ گال سوتے لال کے
جس جگہ دہقاں کو رنجِ محنت و کوشش ملے
اور نوابوں کے کتوں کو حسیں پوشش ملے
تیرے شاعر کو یقیں آتا نہیں، رب العلا!
جس پہ تو نازاں ہے اتنا، وہ یہی دنیا ہے کیا؟
 
فہرست