شرط

مجید امجد


تجھ کو ڈر ہے کہ ناموس گہِ عالم میں
عشق کے ہاتھوں نہ ہو جائے تو بدنام کہیں
آج تک مجھ سے جو شرما کے بھی تو کہہ نہ سکی
وہ ترا راز زمانے میں نہ ہوعام کہیں!
کسی شب ایسا نہ ہو نالۂ بیتاب کے ساتھ
تیرے ہونٹوں سے نکل جائے مرا نام کہیں
روزنِ در سے لگی، منتظر، آنکھوں کا حال
جا کے تاروں سے نہ کہہ دے شفقِ شام کہیں
اس کی پاداش میں ساقیِ فلک چھین نہ لے
مرے ہونٹوں سے ترے ہونٹوں کا یہ جام کہیں
یہ تری شرطِ وفا ہے کہ وفا کا قصہ
دیکھ! سن پائے نہ گردش گرِ ایام کہیں
ہاں مری روح پہ مسطور ہے یہ شرط تری
مجھے منظور ہے منظور ہے یہ شرط تری
تو یقیں رکھ کہ ترے عشق میں جیتے جیتے
عدم آباد کی آغوش میں سو جاؤں گا
ایک دن دل سے جب آوازِ شکست آئے گی
اس کے آہنگِ فنا رقص میں کھو جاؤں گا
موت کے دیو کی آنکھوں سے ٹپکتا ہے جو
جذب اس شعلۂ جاں سوز میں ہو جاؤں گا
اور خدا پوچھے گا وہ راز باصرار ترا
اس کے اصرار سے ٹکرائے گا انکار مرا
 
فہرست