مطربہ سے

مجید امجد


فضا میں بحرِ موسیقی رواں معلوم ہوتا ہے
جہاں کا ذرہ ذرہ نغمہ خواں معلوم ہوتا ہے
سنبھلنے دے ذرا او مطربہ، یہ نشتریں نغمہ
جگر کے زخم پر زخمہ کناں معلوم ہوتا ہے
یونہی گائے جا گائے جا ترا سوز آفریں دیپک
مری ہی زندگی کی داستاں معلوم ہوتا ہے
تو گاتی ہے تو میرے سامنے نظارۂ عالم
کسی فردوسِ رنگیں کا سماں معلوم ہوتا ہے
تو گاتی ہے تو آنکھیں کھول کر لیتی ہے انگڑائی
ربابِ دہر کے نغموں کی محوِ خواب رعنائی
تو گاتی ہے تو تیرے رخ پہ زلفیں جھوم جاتی ہیں
تو گاتی ہے تو تیری مدھ بھری آنکھیں بھی گاتی ہیں
تو گاتی ہے تو تیرے چنپئی ہونٹوں کی مہکاریں
شرابِ نغمہ کی سرمستیوں میں ڈوب جاتی ہیں
تو گاتی ہے تو گاتے وقت تیرے روئے تاباں پر
جمالِ زہرہ کی زیبائیاں جادو جگاتی ہیں
تو گاتی ہے تو تیری راگنی کی مست کن تانیں
مری رگ رگ کو نیش درد بن کر گدگداتی ہیں
مرے خلدِ تصور کی فضا کو ہمہمائے جا
یونہی گائے جا، گائے جا، یونہی گائے جا، گائے جا
 
فہرست