سرِ بام!

مجید امجد


لوآ گئی وہ سرِ بام مسکراتی
لیے اچٹتی نگاہوں میں اک پیامِ خموش
یہ دھندلی دھندلی فضاؤں میں انعکاسِ شفق
یہ سونا رستہ، یہ تنہا گلی، یہ شام خموش
گلی کے موڑ پہ اک گھر کی مختصر دیوار
بچھا ہے جس پہ دھندلکوں کا ایک دام خموش
یہ چھت کسی کے سلیپر کی چاپ سے واقف
کسی کے گیتوں سے آباد یہ مقامِ خموش
کسی کے مد بھرے نینوں سے یہ برستا خمار
کسی کی نقرئی بانہوں کا یہ سلامِ خموش
منڈیر پر بصد انداز کہنیاں ٹیکے
کھڑی ہوئی ہے کوئی شوخ لالہ فام خموش
لیے اچٹتی نگاہوں میں اک پیامِ خموش
 
فہرست