ابرِ صبوح

مجید امجد


تیرتے بادل، خنک جھونکے ، خمار آگیں سماں
آسماں پر ناچتی اڑتی ابابیلوں کے راگ
اس طرح لہرا رہی ہیں اودی اودی بدلیاں
جیسے اک کافر ادا کے دوش پر زلفوں کے ناگ
جیسے نیلی جھیل میں بہتی ہوئی اک اوڑھنی
بھول آئی ہو جسے معصوم پنہارن کوئی
گدرے گدرے ابر پاروں کی چھلکتی چھاگلیں
اس طرح ٹپکا رہی ہیں رس بھری مدرا کا جھاگ
جس طرح رو دے کوئی مہجور پی کی یاد میں
سونپ کر جذبات کی اندھیاریوں کو دل کی باگ
جیسے سیمیں انگلیوں سے مغبچہ ہائے بہشت
چھانتے ہوں حور کے گیسو میں صہبائے بہشت
وہ اٹھی کالی گھٹا، اٹھ بھی مری مستِ شباب
وہ اڑا جاتا ہے بادل، ہاں اڑا بوتل کا جھاگ
بجھ چلا ہے روح کا آتش کدہ، لا بھی شراب
پھونک دے میرے رگ و پے میں کوئی بہتی سی آگ
تجھ کو جامِ مے کے ان ہنستے شراروں کی قسم
ان ہواؤں کی قسم، ان ابر پاروں کی قسم
 
فہرست