نفیرِ عمل

مجید امجد


آہ کب تک گلۂ شومیِ تقدیر کریں
کب تلک ماتمِ ناکامیِ تدبیر کریں
کب تلک شیون جورِ فلکِ پیر کریں
کب تلک شکوۂ بے مہری ایام کریں
نوجوانانِ وطن! آؤ کوئی کام کریں
آج بربادِ خزاں ہے چمنستانِ وطن
آج محرومِ تجلی ہے شبستانِ وطن
مرکزِ نالہ و شیون ہے دبستانِ وطن
وقت ہے چارۂ دردِ دلِ ناکام کریں
نوجوانانِ وطن! آؤ کوئی کام کریں
آؤ اجڑی ہوئی بستی کو پھر آباد کریں
آؤ جکڑی ہوئی روحوں کو پھر آزاد کریں
آؤ کچھ پیرویِ مسلکِ فرہاد کریں
یہ نہیں شرطِ وفا، بیٹھ کے آرام کریں
نوجوانانِ وطن! آؤ کوئی کام کریں
ایک ہنگامہ سا ہے آج جہاں میں برپا
آج بھائی ہے سگے بھائی کے خوں کا پیاسا
آج ڈھونڈے سے نہیں ملتی زمانے میں وفا
آؤ اس جنسِ گرانمایہ کو پھرعام کریں
نوجوانانِ وطن! آؤ کوئی کام کریں
جامِ جم سے نہ ڈریں، شوکتِ کے سے نہ ڈریں
حشمتِ روم سے اور صولتِ رے سے نہ ڈریں
ہم جواں ہیں تو یہاں کی کسی شے سے نہ ڈریں
ہم جواں ہیں تو نہ کچھ خدشۂ آلام کریں
نوجوانانِ وطن! آؤ کوئی کام کریں
رشتۂ مکر و ریا توڑ بھی دیں، توڑ بھی دیں
کاسۂ حرص و ہوا پھوڑ بھی دیں، پھوڑ بھی دیں
اپنی یہ طرفہ ادا چھوڑ بھی دیں، چھوڑ بھی دیں
آؤ کچھ کام کریں، کام کریں، کام کریں
نوجوانانِ وطن! آؤ کوئی کام کریں
 
فہرست