انقلاب

مجید امجد


مری آنکھوں میں برستے ہوئے آنسو نہ رہے
دل کی دنیا نہ رہی، درد کے پہلو نہ رہے
آہوں سے روح کی اگنی کی بھبھک جاتی رہی
خشک ہونٹوں سے شرابوں کی مہک جاتی رہی
نیند کا چین گیا، جاگنے کی بات گئی
نشوں کا دن گیا اور مستیوں کی رات گئی
ذروں کے سینوں میں مہتابوں کی دنیا نہ رہی
قرمزی رنگوں میں گم خوابوں کی دنیا نہ رہی
ڈال رکھا تھا تخیل نے جو رنگیں پردا
رخِ ہستی سے ہے اٹھنے لگا رفتہ رفتہ
اب حقیقت مری آنکھوں کے قریب آتی ہے
نظر اب دنیا کی تصویر مہیب آتی ہے
اب تبسم مجھے غنچوں کا رلا دیتا ہے
دل کے شعلوں کا ہر اک جھونکا ہوا دیتا ہے
حسن کے ناز و ادا جانتا ہوں، جانتا ہوں
اس کا سحر، اس کا فسوں، مانتا ہوں، مانتا ہوں
چاند کی قاش سے ماتھے کی صباحت! سچ ہے
پھول کی طرح حسیں چہرے کی رنگت! سچ ہے
مست نظروں میں شرابوں کی ملاوٹ! سچ ہے
سرخ ہونٹوں میں نباتوں کی گھلاوٹ! سچ ہے
دیکھتی ہیں مگر اب میری نگاہیں کچھ اور!
اب مرے فکر پہ ہیں کھل گئیں راہیں کچھ اور
اب ہر اک شے کی حقیقت پہ گماں رکھتا ہوں
اپنی تخییل کے قدموں پہ جہاں رکھتا ہوں
دیکھتا ہوں کہ نہیں کچھ بھی یہاں میرے بغیر
خس و خاشاک کا ہے ڈھیر جہاں میرے بغیر
حسن اک دھوکا ہے اور عشق ہی خود بھول ہے اک
تتلی کیوں گل پہ گرے ، تتلی ہی خود پھول ہے اک
 
فہرست