یہ سچ ہے

مجید امجد


یہ سچ ہے اس کی دنیا میں کوئی قیمت نہیں ہوتی
پڑا رہتا ہے جب تک بحر کی آغوش میں موتی
یہ سچ ہے پھول جب تک شاخ سے توڑا نہیں جاتا
کسی کے گیسوئے پرپیچ میں جوڑا نہیں جاتا
شرابِ ناب جب تک بٹ نہیں جاتی کٹوروں میں
جھلک سکتی نہیں ان مد بھری آنکھوں کے ڈوروں میں
یہ سچ ہے جب ندی اپنی روانی چھوڑ دیتی ہے
تو اس کے ساز کے تاروں کو فطرت توڑ دیتی ہے
یہ سچ ہے اپنے جوہر کھو رہا ہوں دیس میں رہ کر
گزرتی زندگی کو رو رہا ہوں دیس میں رہ کر
اسی ماحول تک محدود ہے نغمہ مری نے کا
فضا کی تنگیوں میں گھٹ رہا ہے دم مری لے کا
مجھے آفاق کی پہنائیاں آواز دیتی ہیں
مجھے دنیا کی بزم آرائیاں آواز دیتی ہیں
مگر میں چھوڑ کر یہ دیس پیارا جا نہیں سکتا
بھلا کر میں ان آنکھوں کا اشارا جا نہیں سکتا
وہ آنکھیں جن کی اشک افشانیاں جانے نہیں دیتیں
وہ جن کی ملتجی حیرانیاں جانے نہیں دیتیں
 
فہرست