قیصریت

مجید امجد


ایک قطرہ سلطنت کی موج کا
اک سپاہی بادشہ کی فوج کا!
دوش پر تیر و کماں باندھے ہوئے
جا رہا تھا رختِ جاں باندھے ہوئے
چوم کر اس کے گلابی گال کو
جاتے دم کہتا تھا اپنے لال کو
’’دیکھتی ہے راستہ امی تری
جاؤ بیٹا، جاؤ! میں آیا ابھی‘‘
بچہ مڑ کر چل پڑا ماں کی طرف
اور سپاہی خونی میداں کی طرف
وہ سپاہی جنگ میں مارا گیا
ڈوب اس کی زیست کا تارا گیا
لاش اس کی جوئے خوں میں بہہ گئی
کشتوں کے پشتوں میں کھو کر رہ گئی
لٹ گیا جب اس کی دلہن کا سہاگ
تھام لی شیطاں نے اس کے دل کی باگ
اس نے کر لی ایک اور شادی کہیں
حسن اور خوئے وفا؟ ممکن نہیں
اس سپاہی کا وہ اکلوتا یتیم
آنکھ گریاں، روح لرزاں، دل دو نیم
بادشہ کے محل کی چوکھٹ کے پاس
لے کے آیا بھیک کے ٹکڑے کی آس
اس کے ننگے تن پہ کوڑے مار کر
پہرے داروں نے کہا دھتکار کر
کیا ترے مرنے کی باری آ گئی؟
دیکھ وہ شہ کی سواری آ گئی
وہ مڑا، چکرایا اور اوندھا گرا
گھوڑوں کے ٹاپوں تلے روندا گیا
دی رعایا نے صدا ہر سمت سے
’’بادشاہ مہرباں! زندہ رہے ‘‘
 
فہرست