قیدی دوست

مجید امجد


میرے قیدی دوست! تو مغموم سا رہتا ہے کیوں؟
لگ کے زنداں کی سلاخوں سے کھڑا رہتا ہے کیوں؟
رات دن پتھرائی آنکھوں سے مجھے تکتا ہے تو
بات وہ کیا ہے جو مجھ سے کہہ نہیں سکتا ہے تو؟
تیرے سینے کی نوائے راز کو سنتا ہوں میں
جب تری زنجیر کی آواز کو سنتا ہوں میں
لیکن اے ساتھی، نہ گھبرا، مژدہ ہو، کل رات کو
سنتری دہرا رہے تھے راز کی اس بات کو
’’حکم آیا ہے کہ اس زنداں میں ہیں جتنے اسیر
جن کے دکھیارے دلوں میں ہیں کھٹکتے غم کے تیر
ایک آہن پوش کشتی پر انہیں کر کے سوار
بھیج دو اس بحر کے پرخوف طوفانوں کے پار‘‘
دیکھ! افق پر صبح کی دھندلاہٹوں کے درمیاں
وہ نظر آیا سفینے کا سنہری بادباں!
اب ہماری قیدگہ کے قفل کھولے جائیں گے
اس سفینے پر ہر اک بدبخت کو لے جائیں گے
اس جگہ اک دوسرے کے متصل بیٹھیں گے ہم
چند گھڑیوں کے لیے آپس میں مل بیٹھیں گے ہم
اپنی اپنی داستاں رو رو کے کہہ جائیں گے ہم
چند لمحوں کے لیے نشوں میں بہہ جائیں گے ہم
بیڑیوں پر تیری رکھ کے اپنی سیمائے نیاز
میں پڑھوں گا میرے قیدی دوست! الفت کی نماز
اتنے میں کشتی کنارے سے لپٹ جائے گی دوست
اور مرے سجدوں کی عمرِ شوق کٹ جائے گی دوست
پھر قدم رکھتے ہی ساحل پر جدا ہو جائیں گے
از سرِ نو قیدیِ دامِ بلا ہو جائیں گے
 
فہرست