بیسویں صدی کے خدا سے

مجید امجد


انہیں آنکھوں سے میں نے ربِ اکبر تیری دنیا میں
غرورِ حسن کو برباد و رسوا ہوتے دیکھا ہے
زر و دولت کی بے حس مورتی کے پاؤں پر میں نے
حسیں فاقہ کشوں کی انکھڑیوں کو روتے دیکھا ہے
چمکتی دھوپ میں مزدور دوشیزہ کو رستوں پر
کڑکتے کوڑوں کی چھاؤں میں اینٹیں ڈھوتے دیکھا ہے
جوانی کی مہکتی رت میں بیواؤں کی آنکھوں کو
جگر کے زخم نمکیں آنسوؤں سے دھوتے دیکھا ہے
تری جنت پہ مجھ کو کیوں یقیں آئے کہ دنیا میں
گل انداموں کو میں نے خار و خس پرسوتے دیکھا ہے
وہ جن پر تو نے برسائے ہیں اپنی بخششوں کے پھول
انہی کو میں نے ہر رستے پہ کانٹے بوتے دیکھا ہے
تری آنکھیں نہیں لیکن سنا ہے دیکھتا ہے تو
ذرا دیکھ اپنے بندوں کی نظر سے گر رہا ہے تو
 
فہرست