بھکشا

مجید امجد


پھرتا پھرتا دکھ کی وادی میں کھویا کھویا سا
لے کر اپنے اجڑے دل کا ٹوٹا پھوٹا کاسا
آ پہنچا ہے تیرے در پر یہ دکھیا بھکیاری
سینے میں طوفانِ تمنا، آنکھ سے آنسو جاری
تیرے اونچے ایواں کی یہ کنگریاں چمکیلی
چوم رہی ہیں جن کو سورج کی کرنیں البیلی
مرمر کی محرابوں کے نیچے وہ بند دریچے
جیسے بیٹھے ہوں جنت کے غلماں آنکھیں میچے
بھینی خوشبوؤں سے مہکا جالی دار جھروکا
جس کی چلمن پر ہر ہلتا سایہ رنگیں دھوکا
تیرے دوارے پر آ کر میں اوگن ہار بھکاری
آنکھوں کے رستے ٹپکا کر سینے کی چنگاری
ذروں کو آج اشکوں کی برساتیں بانٹ رہا ہوں
خاکِ در پر سجدوں کی سوغاتیں بانٹ رہا ہوں
دیکھ اب ڈوبتی ڈوبتی نبضیں کھاتی ہیں ہچکولے
روح کا پنچھی دل کی ممٹی پر ہے کندے تولے
خاک میں مل جانے کو ہے اک چندر روپ جوانی
جیون کی بھکشا دے دے او راج محل کی رانی
 
فہرست