بیاہی ہوئی سہیلی کا خط

مجید امجد


کیا یہ سچ ہے مری سہیلی کہ تم
جلد ہی اب بیاہی جاؤ گی
اک نئی زندگی میں اترو گی
اک نئی قیدگہ بساؤ گی
آج تک جن سے تم بچھڑ نہ سکیں
ان کو اس طرح چھوڑ جاؤ گی
ایک گھونگھٹ کی اوٹ میں چھپ کر
زیست کی قید کاٹ جاؤ گی
نقرئی بندھنوں میں جکڑی ہوئی
راہِ ہستی پہ ڈگمگاؤ گی
پھر بھی آئیں گی چاندنی راتیں
تم مگر یوں نہ گنگناؤ گی
آنکھ میں ہوں گے سرمہ آلود اشک
آہ! تم پھر بھی مسکراؤ گی
آندھیوں کی زدوں میں آئی ہوئی
شمع کی طرح بجھتی جاؤ گی
آہ! یہ دکھ بھرا نظامِ حیات
جس کے پنجے میں تلملاؤ گی
آہ! یہ طوق رسم و راہِ جہاں
جس کو زیبِ گلو بناؤ گی
جس میں جلتا ہے دل سہاگن کا
اس جہنم میں ہنستی جاؤ گی
مان لوں کیا یہ میں کہ آج کی رات
آخری گیت اپنا گاؤ گی
پانی بھرنے کے اک بہانے سے
اپنی گاگر اٹھا کے آؤ گی
آ کے ندی کنارے لہروں کو
دیر سے منتظر سا پاؤ گی
ایک لمحے کے بعد کیا ہو گا
ان کی گودی میں تھرتھراؤ گی
زندگانی کے قیدخانے کی
ساری زنجیریں کاٹ جاؤ گی
کاش پہنچے یہی نوید مجھے
ملے اس خط کی یوں رسید مجھے
 
فہرست