سفرِ حیات

مجید امجد


ہر اک نقشِ پا کی زباں پر فسانے
ہر اک دوب میں مضطرب سو ترانے
ہر اک موڑ پہ اس کے لاکھوں زمانے
یہ رستہ کہاں ختم ہو گا، نہ جانے ؟
کسی بوستانِ حسیں کے کنارے ؟
کسی وادی شبنمیں کے دوارے ؟
کسی خارزار حزیں کے ٹھکانے ؟
یہ رستہ کہاں ختم ہو گا، نہ جانے ؟
امیدوں پہ حسرت سی برسا رہے ہیں
پس و پیش سے کان میں آ رہے ہیں
بھٹکتے ہوئے قافلوں کے ترانے
یہ رستہ کہاں ختم ہو گا، نہ جانے ؟
ہر اک گام کی زد میں خاموش لاشیں
جبینوں کے ٹکڑے تو سینوں کی قاشیں
یہ گزرے ہوئے رہرووں کے ’’فسانے ‘‘
یہ رستہ کہاں ختم ہو گا، نہ جانے ؟
مسافر رواں ہیں ادھر آنکھ میچے
ادھر تنکے تنکے کی چلمن کے نیچے
بچھا رکھا ہے دام اپنا قضا نے
یہ رستہ کہاں ختم ہو گا، نہ جانے ؟
نگاہوں کے آگے اجل کی سیاہی
کرے کیا بچارا تھکا ہارا راہی
چلا تو ہے تقدیر کو آزمانے
یہ رستہ کہاں ختم ہو گا، نہ جانے ؟
 
فہرست