چچی

مجید امجد


آگ لینے آئی جب کوئی پڑوسن شام کو
یوں چچی نے وا کیا اپنے لبِ دشنام کو
’’اس موئی پاپن نے تو مجھ کو جلا ڈالا بہن!
کوئی ہو اس بے حیا سے پوچھنے والا، بہن
یہ نگوڑی کیوں گلی کے موڑ پر کل پچھلی رات
کر رہی تھی جانے کیا سرگوشیاں اور اس کے سات‘‘
وہ بےچاری آلوؤں کو چھیلتی بے اختیار
ہاتھ میں اپنے چبھو بیٹھی چھری کی تیز دھار
صبح کو گونجی فضا میں جب کسی بنسی کی لے
اس کے سینے میں تڑپ اٹھی کوئی بیتاب شے
ہاتھ سے چلتی ہوئی چکی کا دستہ چھٹ گیا
اک جہاں اس کے تصور میں بسا اور لٹ گیا
اتنے میں ظالم چچی کی غیظ ناک آواز پر
جھک گئی پھر سے وہ سنگِ آسیا کے ساز پر
کیوں نہ ہواس دکھ کی ماری کے لیے جینا وبال
اک چچی کے ہاتھ میں ہو جس کے گھر کی دیکھ بھال
باپ جس کا کا رخانے میں کہیں مزدور ہو
اپنی اکلوتی جواں بیٹی سے کوسوں دور ہو
جس کی ماں پھر لوٹ کر فردوس سے آئی نہ ہو
وہ ابھاگن! جس بےچاری کا کوئی بھائی نہ ہو
 
فہرست