ملاقات

مجید امجد


تم کو شہروں نے پکارا، سبزہ زاروں نے مجھے
تم کو پھولوں نے صدا دی اور خاروں نے مجھے
میں انھی پگڈندیوں پر بانسری چھیڑا کیا
بے ارادہ، جانے کس کا راستہ دیکھا کیا
جب ندی پر ترمراتا شام کی مہندی کا رنگ
میرے دل میں کانپ اٹھتی کوئی ان بوجھی امنگ
جب کھلنڈری ہرنیوں کی ڈار بن میں ناچتی
کوئی بے نام آرزو سی میرے من میں ناچتی
ریت کے ٹیلے پہ سرکنڈوں کی لہراتی قطار
نیم شب، میں اور میری بانسری اور انتظار
آہ یہ سرسبز میداں، دم بخود، لامنتہی
جن کی وسعت میں جوانی میری آوارہ رہی
بعد مدت کے تمہارا آج ادھر آنا ہوا
وہ زمانہ بچپنے کا، آہ، افسانہ ہوا
کتنے سلجھے بال، کیسی نرم و نازک آستیں
ہنس رہے ہو؟ اک تمہاراقہقہہ بدلا نہیں
مجھ کو دیکھو، میں ابھی وابستۂ آغاز ہوں
ان حسیں ویرانیوں میں گوش بر آواز ہوں
دوڑتی جاتی ہے دنیا وقت کے محمل کے سات
میرے حصے میں وہی بے تاب دن، بے خواب رات
ڈھونڈتا ہوں، گم ہوئی ہے میری دنیائے حسیں
ہاں، انھی پھیلے بیابانوں کے پچھم میں کہیں!
ایک دن جب میرے مرنے کی خبر پائے گی وہ
میری تربت پر تو آئے گی، ضرور آئے گی وہ
 
فہرست