صبح و شام

مجید امجد


تجھ کو خبر ہے کتنی صبحیں
کتنی صبحیں بن گئیں شامیں
آرزوؤں سے مہکی صبحیں
بن کے پرانی پیامی شامیں
ڈوب رہی ہیں، ڈوب چکی ہیں
وقت کے طوفانی دریا میں
کتنی صبحیں، کتنی شاہیں
اب بھی رواں ہے ناؤ میری
اب بھی رواں ہے دھیرے دھیرے
دور ہے امیدوں کا کنارا
دور ہیں ارمانوں کے جزیرے
دور، افق سے دور، وہ دنیا
جس کی فضا میں جھومیں جھامیں
نوریں صبحیں، رنگیں شامیں
ان صبحوں کو، ان شاموں کو
کون مری دنیا میں لائے
ہائے میری دکھیا دنیا
جس کے اجالے بھی ہیں سائے
وہ سائے جن کی ظلمت کو
سونپ چکی ہیں اپنی لگامیں
میری صبحیں، میری شامیں
 
فہرست