ہزاروں راستے ہیں

مجید امجد


ہزاروں راستے ہیں، منزلیں ہیں
سمندر اور صحرا بھی ہیں حائل
مگر رہبر ستارے کی شعاعیں
ہیں ہر رہرو کے سینے کی متاعیں
ہر اک کشتی سمجھتی ہے کہ تارا
رواں ہے ساتھ اس کے بن کے رہبر
تمہاری رہ مری منزل الگ ہے
تمہارے دل سے میرا دل الگ ہے
سمندر اور صحرا ان میں حائل
کسے معلوم ہے یہ دو مسافر
کبھی اک دوسرے سے مل سکیں گے
کبھی شاید یہ غنچے کھل سکیں گے !
مگر دونوں کا رہبر ہے وہ تارا
جو اک دن میرے حرفِ آرزو پر
تمہاری انکھڑیوں سے گر پڑا تھا
جبینِ وقت پر تاباں ہوا تھا
شب و روز آئے اس کے بعد لاکھوں
ابھی تک اس کی کرنوں کے اشارے
صدا بھٹکے ہوؤں کو دے رہے ہیں
ہماری کشتیوں کو کھے رہے ہیں
ہمارے راستے کتنے الگ ہوں
ہماری منزلیں کتنی جدا ہوں
مگر رہبر ستارا تو وہی ہے
امیدوں کا کنارا تو وہی ہے
 
فہرست