نعتیہ مثنوی
شہرِ مکہ بتوں کی بستی ہے
چارسو تیرگی برستی ہے
لو وہ اک نور کی کرن پھوٹی
بزمِ آفاق جگمگا اٹھی
دیکھنا اک یتیم بے ساماں
بے نوا، کم سخن، تہی داماں
جس نے یوں سال و سن گزارے ہیں
بھوک میں اپنے دن گزارے ہیں
پیرہن تن پہ تار تار اس کا
کوئی محرم نہ دوستدار اس کا
تپتی ریتوں پہ محوِ خواب کہیں
تیز کانٹوں سے زخم یاب کہیں
چلتی تیغوں کے درمیان کبھی
کنکروں سے لہولہان کبھی
ذرہ ذرہ عدوئے جاں اس کا
تشنۂ خوں ہے اک جہاں اس کا
ہاں مگر لب جب اس کے ہلتے ہیں
دل کے مرجھائے پھول کھلتے ہیں
جب وہ پیغامِ حق سناتا ہے
وجد میں دو جہاں کو لاتا ہے
جب وہ اونچی صدا سے کہتا ہے
ہادیانہ ادا سے کہتا ہے
گمرہو! تم یہ کیا سمجھتے ہو
پتھروں کو خدا سمجھتے ہو
دل دہلتے ہیں قہرمانوں کے
دیے بجھتے ہیں کفر خانوں کے
بات یہ کیا زبان سے نکلی
لاکھ تلوار میان سے نکلی
ظالموں کی اذیتیں اک سمت
اور خدا کی مشیتیں اک سمت
دیکھنا تیز دھوپ کی لو میں
آندھیوں کی شرارہ گوں رو میں
مکے سے دور اور مدینے کے پاس
جا رہا ہے کوئی بہشت انفاس
جا رہا ہے وہ کوئی راہ نورد
دو جہاں اس کی پاک پلکوں کی گرد
سانڈنی پر سوار جاتا ہے
درمیانِ غبار جاتا ہے
ساتھ اک صدقِ جاں روانہ ہے
عشق کا کارواں روانہ ہے
سرِ مکہ کچھ اور منظر ہے
مرتضیٰ ہے ، نبی کا بستر ہے
شب ہے ، اندھیرا گہرا گہرا ہے
چار سو قاتلوں کا پہرا ہے
وہ پیمبر کی چارپائی پر
ہنستا ہے بے سمجھ خدائی پر
سوئے یثرب نبی کی باگ اٹھی
کفر کے خرمنوں سے آگ اٹھی
روئے صحرا کے ٹیلے ٹیلے پر
آج قدغن ہے ہر قبیلے پر
اس طرف سے رسول اگر گزرے
تو وہ کٹوا کے اپنا سر گزرے
آہ وہ راستہ بیاباں کا
خطِ نوری جبینِ ایماں کا
اس کی پاکیزہ خاک، کیا کہنا!
خاک اور تابناک، کیا کہنا!
جس کے ذروں کو رشکِ ماہِ تمام
کر گیا ناقۂ نبی کا خرام
نقشِ پا دے کے جس کے سینے کو
میرا آقا گیا مدینے کو
کاش وہ خاک مجھ کو مل جائے
سرمۂ پاک مجھ کو مل جائے
میں اسے رکھ کر آنکھ کے تل میں
آنکھ کے تل میں، دیدۂ دل میں
جگمگاتا پھروں زمانے میں
زندگی کے سیاہ خانے میں
جو نبی کے قریب ہیں وہ لوگ
کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ
اس کے قدموں کے ساتھ رہتے ہیں
اس کی موجوں کے ساتھ بہتے ہیں
اس کے ابرو کے ہر اشارے پر
تیرتے ہیں لہو کے دھارے پر
اس کی عزت پہ سر کٹاتے ہیں
آخری وقت مسکراتے ہیں
ان کے قدموں میں دولتِ کونین
ان کا ایک ایک سانس بدر و حنین
ہاں وہ دیکھو بلال کی حالت
چور زخموں سے خون میں لت پت
گرم ریتی پہ تلملاتا ہے
تازیانوں کی چوٹ کھاتا ہے
موت کا خوف ہے نہ زیست کی فکر
اس کے ہونٹوں پہ لا الٰہ کا ذکر
دیکھنا جنگ احد کی جاری ہے
وقت اسلامیوں پہ بھاری ہے
چار سو کافروں کا ریلا ہے
ابن سکن زیاد اکیلا ہے
اس نے دیکھا کہ چند پیکرِ شر
وار کرنے کو ہیں محمد پر
دوڑ کر آ کے درمیانِ نبی
جان دے کر بچائی جانِ نبی
لاش اس کی اٹھا کے لاتے ہیں
سامنے مصطفیٰ کے لاتے ہیں
ابھی کچھ اس میں ہوش باقی ہے
اک نفس کا خروش باقی ہے
دمِ آخر کے وقتِ مشکل میں
ابھی کچھ آرزو سی ہے دل میں
اپنے سینے کے بل گھسٹتا ہے
پائے محبوب سے چمٹتا ہے
ان کے قدموں کو چوم لیتا ہے
مسکراتا ہے ، جان دیتا ہے
آہ یہ رتبۂ فدائے نبی
آخری سانس اور بہ پائے نبی
آہ یہ شمعِ حق کے پروانے
درج انسانیت کے دردانے
کیا محبت ہے ، کیا ارادت ہے
موت ان کے لیے عبادت ہے
جنگِ موتہ کا اک سماں دیکھو
زید کے ہاتھ میں نشاں دیکھو
زید وہ اک غلامِ پاک نہاد
جس کو اسلام نے کیا آزاد
جب نبی کی اسے غلامی ملی
دونوں عالم میں شادکامی ملی
ہر گھڑی، راحتوں میں، صدموں میں
ہے وہ شاہِ عرب کے قدموں میں
یہ ہے رنگِ اخوتِ اسلام
آج سردارِ فوج ہے وہ غلام
وہ جری تیس سو سپاہ کے ساتھ
لڑتا ہے فوج بے پناہ کے ساتھ
ہو محبت رسول سے جس کو
لائے خاطر میں وہ بھلا کس کو
اس کی ہمت کو کون ٹوک سکے
اس کے طوفاں کو کون روک سکے
ہیں رواں زندگی کے ہنگامے
تسمہ اس کی رکاب کا تھامے
جو کچھ اس محفلِ حیات میں ہے
اس کی باگ اس کے پاک ہات میں ہے
موت اس کے لیے ہے شیریں جام
آخری گھونٹ اور عمر دوام
آ رہی ہے وہ فتح یاب سپاہ
لاشِ زیدِ شہید کے ہمراہ
میرِ لشکر نہیں ہے لشکر میں
صفِ ماتم بچھی ہے گھر گھر میں
وہ گہر اب نہیں خزینے میں
ایک کہرام ہے مدینے میں
آب گوں دیدۂ پیمبر ہے
مرنے والے کا کیا مقدر ہے
اس کے زخموں کا خون، چہرے کی دھول
پا رہی ہے نبی کی آنکھ سے پھول
وہ عدم کی طرف روانہ ہے
ساتھ یہ بے بہا خزانہ ہے
اس کی بچی کو دیکھ کر رنجور
اس کے اشکوں کو چومتے ہیں حضور
باپ کا صدمہ کیا پڑا اس پر
جھک پڑی رحمتِ خدا اس پر
رحمتِ دو جہاں کے سائے میں
فرق کیا اپنے اور پرائے میں
جس کے سر پر نبی کا سایہ ہے
اس کی دنیا ہے ، اس کی مایا ہے
اس کا جینا ہے ، اس کا مرنا ہے
ڈوب کر بھی اسے ابھرنا ہے
ایک منزل ہے اس کے ایماں کی
سربلندی مقامِ انساں کی
لو لگا کر خدا کی ہستی سے
آدمی کو اٹھانا پستی سے
روح میں شورشیں زمانوں کی
سانس میں کروٹیں جہانوں کی
دل میں سامان سو اجالے کا
ہاتھ میں پلو کملی والے کا