زندانی

مجید امجد


دردوں کے مارے دو قیدی!
زنجیروں کی جھنکاروں میں
اک غمگیں سا، اک حیراں سی
کالی کالی کوٹھڑیوں میں
دونوں کی نظروں پر پہرے
ہونٹوں پر مہریں چسپاں سی
لاکھوں آرزوئیں، امیدیں
دوزخ کے ناگوں کی صورت
سینوں میں غلطاں غلطاں سی
سہمے سہمے سے قدموں کی
آہٹ کان میں آ جاتی ہے
آہٹ! مدھم سی، بے جاں سی
تو اک چرخے کی گھوں گھوں میں
گم سی ہو کر رہ جاتی ہے
خوف زدہ، پرمعنی کھانسی
پھر وہی جلادوں کی نگاہیں
پھر وہی سنگینوں کی نوکیں
پھر وہی خنجر، پھر وہی پھانسی
 
فہرست