جیون دیس

مجید امجد


مجھے یقیں تھا
میں جانتا تھا
کہ اس اندھیرے گھنیرے جنگل میں جس کے شانوں
پہ تیرتے بادلوں کے سائے — سیاہ گیسو
بکھر گئے ہیں، ضرور کرنوں لدے جہانوں
کا کوئی پرتو، دھلی دھلی دھوپ کا تبسم
کہیں درختوں کے مخملیں سبز سائبانوں
سے چھن کے اس نغمۂ روندی پر جھلک اٹھے گا
جو آنکھ اوجھل مسرتوں کے حسیں ٹھکانوں
کی اوٹ سے پھوٹتے اجالوں میں بہہ رہی ہے
مرے خیالوں میں بہہ رہی ہے !
یہ کون جانے
یہ کون سمجھے
کہ جب بھی اس گھومتی زمیں پر کسی سہانے
سمے کی دھن میں، اٹھی ہیں ترسی ہوئی نگاہیں
تو ذرے ذرے میں زندگی کے نگارخانے
کی جگمگاتی ہوئی سگندھیں سما گئی ہیں
ابد کی خامشیوں میں ڈوبے ہوئے ترانے
ندی کے سینے سے موج بن کر گزر گئے ہیں
مرے خیالوں میں بھر گئے ہیں
 
فہرست