نہ کوئی سلطنتِ غم ہے نہ اقلیمِ طرب
کیا کہوں، کتنے غموں، کتنے غموں کی شکن آلود بساط
وقت کے گھومتے زینوں پہ مرے رکتے ہوئے قدموں کے سات
کس طرح بچھتی لپٹتی ہی چلی آئی ہے
کیا بتاؤں یہ کہانی بڑی طولانی ہے
یہ مرا قصۂ غم کون سنے ؟ کس کو سناؤں — کس کو
اپنے احساس کا وہ جلتا ہوا زہر پلاؤں جس کو
پیتے پیتے مری اک عمر کٹی ہے ، اک عمر
دیکھتے ہو وہ جو اک جادۂ نورانی ہے
وہ جو اک موڑ ہے اور وہ جو جھروکا ہے سرِ بام بلند
کبھی پہنچی نہیں جس تک سحر و شام کے سایوں کی کمند
وہ جو جھکتی ہوئی، مڑتی ہوئی دیواریں ہیں
جن کا منصب انھی گلیوں کی نگہبانی ہے
وہ جو ہر شام انھی گلیوں میں کوئی مست سی لے
بند ہوتے ہوئے دروازوں کے آہنگ میں گھل جاتی ہے
وہ خموشی، سفرِ شب کے تسلسل کی نقیب
جس کی میت پہ اندھیروں نے ردا تانی ہے
میں نے اک عمر اسی معمورۂ ظلمات میں رقصاں، جولاں
ہر قدم اپنے ہی قدموں کی صداؤں سے گریزاں، لرزاں
جگرِ جام سے چھینے ہوئے نشوں میں مگن
خاک ان راہوں کی یوں خاک بہ سر چھانی ہے
جس طرح ایک سہارے کی تمنا میں کسی ٹوٹتے تارے کی حیات
مہ و انجم کے سفینوں کی طرف اپنے بڑھائے ہوئے ہاتھ
خمِ افلاک سے ٹکرا کے بھسم ہو جائے
(ان خلاؤں میں کسے تاب پرافشانی ہے !)
میں بھی پلکوں پہ امنگوں کے دیے لے کے گرجتے ہوئے طوفانوں میں
منتظر تھا کہ اچانک کہیں باغوں میں، بیابانوں میں
آ کے بس جائے کسی نغمۂ شیریں کی بہار!
یہ مرے گرد جو پھیلی ہوئی ویرانی ہے
کب یہاں ریزۂ صد ساغرِ بشکستہ سے کلیاں پھوٹیں
میں نہیں کہتا کہ کلیاں نہیں مہکیں مرے گلزاروں میں
مجھ کو یہ غم ہے وہ اک لمحۂ نایاب کہ جو
حاصلِ سلطنتِ عالمِ امکانی ہے
جب مری زیست سے ٹکرا کے بھسم ہو بھی گیا تب مجھے معلوم ہوا
تب میں سمجھا کہ یہ راہیں، یہ گھروندے ، یہ پھبکتی دنیا
اب یہ سب کچھ غمِ جاؤید کی اک دھڑکن ہے
اب یہی زخم ہیں اور شغلِ مگس رانی ہے
آج بھی جب کہیں رستے میں، کسی موڑ، کسی منزل پر
کسی دیوار سے کنکر بھی پھسل جاتا ہے
کوئی دامن کہ جسے نازِ گل افشانی ہے
دھوپ میں سوکھتی خرما کی چنگیروں سے بھرے کوٹھوں سے
ایک پل کے لیے اڑتا ہے ، سمٹتا ہے تو دھیرے دھیرے
کوئی لے سی مرے احساس میں بھر جاتی ہے
تارِ بربط کی کوئی لرزشِ پہنانی ہے
جو شب و روز کے ایواں میں فغاں بن کے بکھر جاتی ہے
آسمانوں سے ، زمینوں سے کسی دل کے دھڑکنے کی صدا آتی ہے
کوئی چپکے سے مرے کان میں کہہ جاتا ہے
سنتے ہو، کس کی یہ آواز ہے ، پہچانی ہے ؟
’’یوں کب تک صبح و شام جلیں
بے سود جلیں، ناکام جلیں
جب دنیا والے سو جائیں
میٹھے سپنوں میں کھو جائیں ۔۔۔
جب چلتے دریا تھم جائیں
تاروں کی نگاہیں جم جائیں
جب آگ بجھے چوپالوں کی
جب آنکھ لگے رکھوالوں کی
دیوار و در سے چمٹتے ہوئے
دو بھک منگوں کے بھیس میں ہم
جا نکلیں اک اور دیس میں ہم
کچھ دور، افق کے پار، ادھر
ہے ایک نیا سنسار ادھر
خوشیوں کی، سنگاروں کی دنیا
پھولوں کی، بہاروں کی دنیا‘‘
آج اس فرصتِ یک گام کو روتا ہوں جب اک لغزشِ پا
چھین کر لے گئی مجھ سے وہ امنگوں سے چھلکتی دنیا
آہ وہ دنیا جسے کھو کے میں پھر پا نہ سکا
یوں تو آفاق میں دنیاؤں کی ارزانی ہے
ان خلاؤں میں ستارے بھی ہیں، خورشید بھی ہے ، ماہ بھی ہے
کون جانے کہ زمانے کے سمندر کی کوئی تھاہ بھی ہے
لیکن اک دنیا جسے کھو کے میں پھر پا نہ سکا
جس کے ماتم میں مری چاک گریبانی ہے
میری سم خوردہ تمناؤں کی نظروں سے گریزاں ہی رہی
لاکھ ڈھونڈا، مگر افسوس کہ اک رنجِ پشیماں نگہی
بوجھ بن کر مری تقدیر کی پلکوں پہ رہا
اب مرا دل ہے کہ اک عالمِ حیرانی ہے
اب یہ دنیا، یہ صداکوش نصیبوں سے بھرے شہر و دیار
غموں خوشیوں کے جھمیلوں میں نہاتی ہوئی روحوں کا نکھار
مجھ سے پوچھو تو مرے سامنے اب یہ دنیا
ورقِ مصحفِ اندوہِ گراں جانی ہے
سوچتا ہوں یہی دو گھونٹ جو میں نے خمِ دوراں سے پیے
یہی دو سانس، شبستانِ ابد میں یہی دو بجھتے دیے —
دوش و فردا کی فصیلوں میں یہی دو رخنے
یہی جو سلسلۂ زندگیِ فانی ہے
کیا اسی ساعتِ محرومیِ غم تاب کی خاطر میں نے
وسعتِ وادیِ ایام میں کانٹوں کے قدم چومے تھے ؟
لاکھوں دنیاؤں کے لٹتے ہوئے کھلیانوں سے
میرا حصہ یہی میری تہی دامانی ہے ؟
کیا اسی واسطے ماضی کے یخستانوں سے اک موجِ حیات
اپنے ہمراہ لیے ناچتی گاتی ہوئی صدیوں کی برات
آ کے اس ساحلِ گل پوش سے ٹکرائی ہے ؟
کیا یہی مقصدِ صد عالمِ امکانی ہے
کہ جب اس سطحِ خروشندہ پہ ڈھونڈوں میں کوئی رختِ طرب
کوئی مکھ، کوئی نگہ، کوئی تبسم، کوئی جینے کا سبب
آسمانوں سے صدا آئے ’’تو کیا ڈھونڈتا ہے
تیرا ساماں تو یہی بے سر و سامانی ہے ‘‘
عقلِ حیراں ہے ، یہ طرفہ حجاباتِ حریمِ اسرار
عقدۂ راحت و غم، رازِ جہانِ گل و خار
پا بہ زنجیر ارادوں کا خروشِ پیہم
یہی مستقبلِ معمورۂ انسانی ہے ؟
کس کی فتراک میں ہیں عرشِ بریں، فرشِ زمیں؟ کون کہے
پسِ صد پردۂ افلاک کوئی ہے کہ نہیں؟ کون کہے —
جانے کن گہرے دھندلکوں سے ضیا پاتی ہے
درحقیقت یہ حقیقت کی جو تابانی ہے
اتنے زخموں سے سجا کر دل بے تاب کی پژمردہ جبیں—
کس نے بھیجا ہمیں اس جلتے ہوئے دیس میں؟ معلوم نہیں!
یوں نہ اپنے دمِ امید کو بہلائے کوئی
کون کہتا ہے گلستان میں بہار آنی ہے
جی میں آئی ہے کہ اک بارغمِ زیست پہ احساں دھر کر
دیگِ گردوں میں ابلتے ہوئے زہراب سے اک خم بھر کر
(دیگِ گردوں کہ ابد زنگ شکم میں جس کے
کھولتے دردوں کا ہنگامۂ لافانی ہے )
اسی زہراب سے خم بھر کے پٹخ دوں افقِ دوراں پر
آگ ہی آگ برسنے لگے اس پھولوں بھرے بستاں پر
اب یہی دھن ہے کہ اس ظلمت بے پایاں کو
جو مری روح کے ایوان کی زندانی ہے
اٹھ کے پھیلا دوں انہی اونچے درختوں سے ڈھکی راہوں پر
انھی گدرائی ہوئی دھوپ میں لہراتی چراگاہوں پر
اب ارادہ ہے کہ ان بس بھرے ارمانوں کو
جن کے سایوں میں مری زیست کی ویرانی ہے
گھول دوں جھومتے جھونکوں کے چھلکتے ہوئے پیمانوں میں
سینۂ دشت پہ بجتی ہوئی شہنائیوں کی تانوں میں
چاہتا ہوں کہ یہ زیتون کے جنگل کا سکوت
جس کی وسعت ہے کہ اک عالمِ حیرانی ہے
میری کھوئی ہوئی دنیاؤں کے کہرام سے تھرا اٹھے —
اب یہ ٹھانی ہے کہ جمتی ہوئی بوندوں کے یہ بیکل چھینٹے
تیز جھالوں کے یہ چابک سے کہ جن کی زد پر
کبڑے رستوں کی تھکی پیٹھ کی عریانی ہے
یہ دھواں دھوپ ترائی، یہ دھواں دھار پہاڑوں کی فصیل
دور تک چوٹیوں اور بدلیوں کے دیس کی سرحدِ جمیل
برف سی بدلیاں، جن کے لبِ تر سے پیوست
برف کی چوٹیوں کی دودھیا پیشانی ہے
ہاں یہ سب سلسلۂ رنگ، یہ گہوارۂ حسن و افسوں—
میں اسے اپنی دکھی روح کی ان راگنیوں سے بھر دوں
جن کی لہریں کبھی آنسو ہیں، کبھی آہیں ہیں
جن کی تقدیر کبھی آگ، کبھی پانی ہے
کوئی غایت، کوئی منزل، کوئی حاصل سفرِ ہستی کا—
کوئی مقصود بلندی کا کہ مفہوم کوئی پستی کا؟—
کوئی مشعل بھی نہیں، کوئی کرن بھی تو نہیں
شب اندھیری ہے ، گھٹا ٹوپ ہے ، طوفانی ہے
بولو اے نغمہ سرایانِ تحیر کدۂ کاہکشاں
میں کہاں جاؤں، کہاں جاؤں، کہاں جاؤں، کہاں؟