دیکھ اے دل!

مجید امجد


دیکھ اے دل، کیا سماں ہے ، کیا بہاریں شام ہے
وقت کی جھولی میں جتنے پھول ہیں، ان مول ہیں
نہر کی پٹڑی کے دو رویہ، مسلسل دور تک
برگدوں پر پنچھیوں کے غل مچاتے غول ہیں
دیکھ اے دل، کتنے ارمانوں کا رس برسا گئیں
بدلیاں، جب ان پہ چھینٹے نور کے چھن کر پڑے
کتنی کومل کامناؤں کی کہانی کہہ گئے
پیپلوں کے پیلے پیلے پات پتھ پتھ پر پڑے
دیکھ اے دل، اس رسیلی رت کے کتنے روپ ہیں
جھومتے جھونکے ہیں، جھکتی جھاڑیوں کے جھنڈ ہیں
ہائے ان پھیلی ہوئی پھلواڑیوں کے درمیاں
یہ تری تپتی ہوئی تنہائیاں اور ایک میں
 
فہرست