شناور

مجید امجد


تیرتا ہے جب تیراک مرگ رقص دھارے پر
موج سے ابھرتا ہے موج کے سہارے پر
موج پر مسلط بھی، موج کے حوالے بھی
سینۂ شناور بھی درمیانِ دریا ہے
لاکھ لاکھ طوفاں ہیں ایک ایک قطرے میں
تیرنے کی شکتی ہے ڈوبنے کے خطرے میں
جو بہ جو تھپیڑے ہیں آتشیں خیالوں کے
تیرتے ہیں دل جن میں پیار کرنے والوں کے
پریمیوں کی بانہوں میں چاہتوں کا دریا ہے
تیرنے کی قدغن ہے ، ڈوبنے کا کھٹکا ہے
لہر لہر کی دھڑکن، درد کا قرینہ بھی
لہر لہر کی کروٹ، زندگی کا زینہ بھی
کتنے دل جو موجوں کی چوٹ چوٹ سہتے ہیں
اس بھنور کے گھیرے میں پھول بن کے بہتے ہیں
Robert Francis کی نظم کا ترجمہ
 
فہرست