وہ ایک دن بھی عجیب دن تھا

مجید امجد


وہ ایک دن بھی عجیب دن تھا
تم آئے ، بادل امنڈ کے آئے
ہزارہا رنگتوں کے سائے
فضائے دوراں پہ تھرتھرائے
تم آئے — اور برگِ صد شجر سے
الجھنے والی شعاعِ زر سے
تمہاری زلفوں پہ پھول برسے
عجیب دن تھا، ہر ایک پتی سنور رہی تھی
ہر ایک موجِ ہوا تڑپ کر گزر رہی تھی
جدھر بھی دیکھا، ہر ایک شے رقص کر رہی تھی
پہاڑ صدیوں سے جن کے سنگین پاؤں پاتال میں گڑے تھے
دھڑام سے ، دفعتاً، ابلتے ہوئے سمندر میں گر پڑے تھے
پھر ایک لمحے کے بعد، اٹھ کر، اسی طرح چپ، اٹل کھڑے تھے
ندی کا پانی جو اک زمانے سے بہہ رہا تھا
اچانک اک پل کو چلتے چلتے ٹھٹک گیا تھا
بس ایک لمحے کو تھم کے پھر بہنے لگ پڑا تھا
ہمارے قدموں تلے زمیں اک عجیب اندازِ مطمئن میں
سرکتی بڑھتی رواں تھی ان بے نشاں دیاروں کی سمت جن میں
ہزار شام و سحر کے کھلیان جل اٹھے تھے اس ایک دن میں
Philip Murrey کی نظم کا ترجمہ
 
فہرست