متروکہ مکان

مجید امجد


یہ محلے ، یہ گھروندے ، یہ جھروکے ، یہ مکاں
ہم سے پہلے بھی یہاں
بس رہے تھے سکھ بھرے آنگن، سنہری بستیاں
جانے والے گھر کی چاہت سے تہی پہلو نہ تھے
اتنے بے قابو نہ تھے
روکتا کون؟ اس جھکی محراب کے بازو نہ تھے
اک اٹل ہونی کی زنجیروں میں جکڑے قافلے
ساتھ لے جاتے اسے
بات صرف اتنی کہ اس دیوار کے پاؤں نہ تھے
اب وہ روحیں گونجتے جھکڑ میں گھلتی سسکیاں
ان کے مسکن یہ مکاں
منہدم ادوار کے ملبے پہ جلتی ارتھیاں
راکھ ہوتی ہڈیوں کے گرم گارے میں گندھی
گرتے اشکوں میں ڈھلی
اب یہی اینٹیں ہماری عظمتِ افتادگی
پڑ گئے اینٹوں کے مڑتے زاویوں کے بس میں ہم
بھول کے سب اپنے غم اس دامِ خشت و خس میں ہم
بھڑ گئے آپس میں ہم
یہ محلے ، یہ منڈیریں، یہ محل، یہ منڈلیاں
کون دیکھے اب یہاں
کھنچ گئی ہیں کتنی دیواریں دلوں کے درمیاں
بھر لیے ہم نے ان ایوانوں میں تھے جتنے شگاف
کون دیکھے آسماں کی چھت میں ہیں کتنے شگاف
 
فہرست