بہار

مجید امجد


ہر بار، اسی طرح سے دنیا
سونے کی ڈلی سے ڈھالتی ہے
سرسوں کی کلی کی زرد مورت
تھاما ہے جسے خمِ ہوا نے
ہر بار، اسی طرح سے شاخیں
کھلتی ہوئی کونپلیں اٹھائے
رستوں کے سلاخچوں سے لگ کر
کیا سوچتی ہیں؟ یہ کون جانے
ہر بار، اسی طرح سے بوندیں
رنگوں بھری بدلیوں سے چھن کر
آتی ہیں مسافتوں پہ پھیلے
تانبے کے ورق کو ٹھنٹھنانے
ہر سال، اسی طرح کا موسم
ہر بار، یہی مہکتی دوری
ہر صبح، یہی کٹھور آنسو
رونے کے کب آئیں گے زمانے
 
فہرست