دوام

مجید امجد


کڑکتے زلزلے امڈے ، فلک کی چھت گری، جلتے نگر ڈولے
قیامت آ گئی سورج کی کالی ڈھال سے ٹکرا گئی دنیا
کہیں بجھتے ستاروں، راکھ ہوتی کائناتوں کے
رکے انبوہ میں کروٹ، دو سایوں کی
کہیں اس کھولتے لاوے میں بل کھاتے جہانوں کے
سیہ پشتے کے اوجھل، ادھ کھلی کھڑکی
کوئی دم توڑتی صدیوں کے گرتے چوکھٹے سے جھانکتا چہرہ
زمینوں آسمانوں کی دہکتی گرد میں لتھڑے خنک ہونٹوں سے یوں پیوست ہے اب بھی
ابھی جیسے سحر بستی پہ جیتی دھوپ کی مایا انڈیلے گی
گلی جاگے گی، آنگن ہمہمائیں گے
کوئی نیندوں لدی پلکوں کے سنگ اٹھ کر
کہے گا ۔۔۔’’رات کتنی تیز تھی آندھی! ‘‘
 
فہرست