بول ان مول

مجید امجد


اب یہ مسافت کیسے طے ہو، اے دل، تو ہی بتا
کٹتی عمر اور گھٹتے فاصلے ، پھر بھی وہی صحرا
چیت آیا، چیتاؤنی بھیجی، اپنا وچن نبھا،
پت جھڑ آئی، پتر لکھے ۔۔۔ آ، جیون بیت چلا
خوشیوں کا مکھ چوم کے دیکھا، دنیا مان بھری
دکھ وہ سجن کٹھور کہ جس کو روح کرے سجدا
اپنا پیکر، اپنا سایہ، کالے کوس کٹھن
دوری کی جب سنگت ٹوٹی، کوئی قریب نہ تھا
شیشے کی دیوار زمانہ، آمنے سامنے ہم
نظروں سے نظروں کا بندھن، جسم سے جسم جدا
اپنے گرد اب اپنے آپ میں گھلتی سوچ بھلی
کس کے دوست اور کیسے دشمن! سب کو دیکھ لیا
راہیں دھڑکیں، شاخیں کڑکیں، اک اک ٹیس اٹل
کتنی تیز چلی ہے اب کے دھول بھری دکھنا
دکھڑے کہتے لاکھوں مکھڑے ، کس کس کی سنیے
بولی تو اک اک کی ویسی، بانی سب کی جدا
 
فہرست