معاشرہ

مجید امجد


ہر طرف رات کے اندھیروں کے
سرسراتے وجود سایوں کی طرح
دبے پاؤں رواں ہیں، کیا کیجے
جب ذرا بھی سسکتی روحوں کی
کوئی ناداں، نچنت انگڑائی
اپنا بوجھل لباس اتارتی ہے
سائے رکتے ہیں، سائے ہنستے ہیں
رات، خاموشیاں، دھڑکتے دل
صحن میں چارپائیوں کے گرد
ہمہ تن گوش، جاگتی دیوار۔۔۔
جھانکتا سر ۔۔۔ منڈیر پر گملا
دیکھتی آنکھ ۔۔۔ نیم وا روزن
جب ذرا بھی برہنہ سپنوں کی
کوئی رو پیرہن سنبھالتی ہے
ایک دھیمی سی چاپ، نیند کی نند
دو قدم بڑھ کے لوٹ جاتی ہے !
رات کے فرش پر قدم رکھتی
ساعتیں اپنے ساتھ لائی ہیں
کتنے ارمان، کتنی زنجیریں!
جب بھی جھونکوں کی گدگدی سے کسی
آرزو کی قبا مسکتی ہے
جب بھی پگھلے دلوں کے جوشن کا
بند کوئی ذرا چٹختا ہے
سایوں کے دیو، اپنے کالے مکٹ
ابروؤں کی شکن پہ سرکا کر
جاگتی کروٹوں کو گھورتے ہیں
 
فہرست