وقت

مجید امجد


وقت ہے اک حریم بے دیوار
جس کے دوار آنگنوں میں سدا
رقص کرتے ہوئے گزرتے ہیں
دائروں میں ہزارہا ادوار
بیتتی بات اور آنے والی آن
امرِ امروز اور فرِ فردا
سب زمانے ، تمام عرصۂ دہر
وقت کی ایک تیز لہر کی عمر!
کل وہ سب کچھ تھا جو کچھ آج بھی ہے
آج جو کچھ ہے ، اس زمانے میں تھا
جب وہ سب کچھ کہ جس نے ہونا ہے
ہو چکا تھا، یہ کھیل ہونی کے !
لاکھ قرنوں کے ان قرینوں میں
نہ کوئی دن نہ سن، نہ یوم نہ عصر
صرف اک پل، بسیط، بے مدت
اپنے بھیدوں کی حد میں لامحدود
اس کی یک رنگیوں میں یکساں ہیں
ہنستے سنجوگ بھی، بجھے دل بھی
سلسلے سجتی سجتی سیجوں کے بھی
مسئلے مسلے مسلے پھولوں کے بھی
وقت بہتا ہوا وہ دھارا ہے
جس کی رو خنجروں کی دھار نہیں
وقت جیتی حقیقتوں کا جتن
مرنے والے کبھی مرے ہی نہیں
اتنے پہلو ہیں اس پہیلی کے
اور اک ہم، کہ جن کے علم کی لم
ہے فقط انگلیوں کا لمس اور بس
ہائے اندھی روایتوں کے طلسم
Richard Aldington کی نظم کا ترجمہ
 
فہرست