بارکش

مجید امجد


چیختے پہیے ، پتھ پتھریلا، چلتے بجتے سم
تپتے لہو کی رو سے بندھی ہوئی اک لوہے کی چٹان
بوجھ کھینچتے ، چابک کھاتے جنور! ترا یہ جتن
کالی کھال کے نیچے گرم گٹھیلے ماس کا مان
لیکن تیری ابلتی آنکھیں، آگ بھری، پر آب
سارا بوجھ اور سارا کشٹ ان آنکھوں کی تقدیر
لاکھوں گیانی، من میں ڈوب کے ڈھونڈیں جگ کے بھید
کوئی تری آنکھوں سے بھی دیکھے دنیا کی تصویر!
 
فہرست