سانحات

مجید امجد


کوئی بھی واقعہ کبھی تنہا نہیں ہوا
ہر سانحہ اک الجھی ہوئی واردات ہے
آندھی چلے تو گرتی ہوئی پتیوں کے ساتھ
لاکھوں صداقتوں کے ہیں ڈانڈے ملے ہوئے
دیکھے کوئی تو دیکھتی آنکھوں کے سامنے
کیا کچھ نہیں کہ دیکھنا جس کا محال ہے
اک جام اٹھا کے میں نے زمیں پر پٹخ دیا
سوچو، اس ایک لمحے میں کیا کچھ نہیں ہوا
ہر سمت ڈھیر صد صدفِ سانحات کے
قوسِ کنارِ قلزمِ دوراں پہ لگ گئے
پرکھو تو رنگ رنگ کی ان سیپیوں پہ ہے
لہروں کے تازیانوں کی تحریر الگ الگ
چاہو تو واقعات کے ان خرمنوں سے تم
اک ریزہ چن کے فکر کے دریا میں پھینک دو
پانی پہ اک تڑپتی شکن دیکھ کر ہنسو
چاہو تو واقعات کی ان آندھیوں میں بھی
تم یوں کھڑے رہو کہ تمہیں علم تک نہ ہو
طوفاں میں گھر گئے ہو کہ طوفاں کا جزو ہو
 
فہرست