ریزۂ جاں

مجید امجد


ہماری زندگیوں کے سمندروں میں چھپے
کہیں دلوں کی تہوں میں عجیب اندیشے
کبھی کبھی انہی لہروں کی گونج میں ہم نے
اک آنے والے تموج کی سیٹیاں بھی سنیں
مگر یہ کس کو خبر، کیا ہے اک وہ ربطِ عمیق
وہ گھور اندھیروں کا ترکہ ہمارے ذہنوں میں
وہ ایک بس بھری حس جو ہوا میں بہتے ہوئے
سیاہ لمحوں کی آہٹ کو بھانپ لیتی ہے
کسے خبر ہے کہ اس جان و تن کی گتھی میں
لہو کی پگھلی سلاخوں کے اس جھمیلے میں
کڑی وہ کون سی ہے ، الجھے سلسلوں کی کڑی
کہ جس کے دل میں یہ مدھم سی اک جھنک، پھر آج
مرے لیے کوئی مگھم سی بات لائی ہے
میں ڈر گیا ہوں ۔۔۔ پراسرار واسطوں کے نظام
یہ خوف بھی تو ہے اک وہ حصارِ بے دیوار
جو میرے دل کو تری بستیوں نے بخشا ہے
تری ہی دین، سیہ سانحوں کو سونگھتی حس
ترا ہی خوف، اس ان بوجھے رابطے کا ثمر
میں ایک ریزۂ جاں ان عجب قرینوں میں
ترے ہی خوف کی زد میں، تری گرفت میں ہوں
ترے ہی ربط کی حد میں ۔۔۔ تری پناہ میں ہوں
 
فہرست