پچاسویں پت جھڑ

مجید امجد


اتنا بھرپور سماں تھا ۔۔۔ مگر اب کے تو ہر اک گرتے ہوئے پتے کے ساتھ
اور اک مٹی کی تہہ میرے لہو میں تیری
اور اک ریت کی سلوٹ مرے دل میں ابھری
اور اک زنگ کی پپڑی مری سانسوں پہ جمی
اتنا بھرپور سماں تھا، مگر اب کے تو مجھے جس نے بھی دیکھا، یہ کہا:
’’جانے کیا بات ہوئی، کچھ تو بتا۔۔۔
تیرے ہونٹوں سے تو اب ایک وہ مرجھائی ہوئی موجِ تبسم بھی گئی‘‘
میں یہ اب کس کو بتاؤں کہ مرے پیکر میں
اک تپش ایسی بھی ہے جس کے سبب
روح کی راکھ پہ شعلوں کی شکن پڑتی ہے
سانس کے بل میں پنپنے کی سکت بٹتی ہے
ٹوٹتی کڑیوں میں جینے کے جتن جڑتے ہیں
میں یہ اب کس کو بتاؤں کہ مرے جسم کے ریشوں کے اس الجھاؤ میں ہے
ایک وہ گرتی سنبھلتی ہوئی نازک سی دھڑکتی ہوئی لہر
جو ہر اک دکھ کی دوا ڈھالتی ہے
جو گزرتے ہوئے لمحوں کے قدم روکتی ہے
مجھ سے کہتی ہے کہ ’’دیکھ، ایک برس اور بجھا
دیکھ اب کے تری بتیسی پہ دھبا سا پڑا، دانت گرا
گھاؤ یہ اب نہ بھرے گا، یہی بہتر ہے کہ ہونٹوں پہ لگا لے کسی جھوٹی سی کڑی سوچ کی مہر
اب کے تو ایک مجھی کو یہ خبر ہے کہ میں کیوں مہر بلب پھرتا ہوں
ورنہ سب لوگ یہی کہتے ہیں: ’’اس شخص کو دیکھو، اب تو
اس کے ہونٹوں سے وہ مرجھائی ہوئی موجِ تبسم بھی گئی‘‘
 
فہرست