جلوسِ جہاں

مجید امجد


میں پیدل تھا، میرے قریب آ کے اس نے ، بہ پاسِ ادب، اپنے تانگے کو روکا
اچانک جو بجریلی پٹڑی پہ سم کھڑکھڑائے ، سڑک پر سے پہیوں کی آہٹ پھسل کر جو ٹھہری
تو میں نے سنا، ایک خاکستری نرم لہجے میں مجھ سے کوئی کہہ رہا تھا:
’’چلیں گے کہیں آپ؟ بازار، منڈی، سٹیشن، کچہری؟‘‘
پلٹ کر جو دیکھا تو تانگے میں کوئی سواری نہیں تھی، فقط اک فرشتہ، پھٹے کپڑے پہنے
عنانِ دو عالم کو تھامے ہوئے تھا
میں پیدل تھا، اتنے میں کڑکا کوئی تازیانہ، بہا فرشِ آہن پہ ٹاپوں کا سرپٹ تریڑا
کوئی تند لہجے میں گرجا: ’’ہٹو، سامنے سے ہٹو!‘‘ اور پرشور پہیے گھناگھن مری سمت جھپٹے
بہ مشکل سنبھل کر جو دیکھا، کھچاکھچ بھرے تیز تانگے کی مسند پہ، اک صورتِ سگ
لجامِ فرس پر جھکی تھی!
یہ لطف کریمانہ خوشدلاں بھی، یہ پرغیظ خوئے سگاں بھی
مرے ساتھ رو میں ہیں لوگوں کے جتنے رویے ، یہ سب کچھ، یہ سارے قضیے
غرض مندیاں ہی غرض مندیاں ہیں، یہی کچھ ہے اس رہگزر پر متاعِ سواراں
میں پیدل ہوں، مجھ کو جلوسِ جہاں سے انھی ٹھوکروں کی روایت ملی ہے
 
فہرست