بے نشاں

مجید امجد


میں اب آیا ہوں ۔۔۔ اتنے برسوں کے بعد
آندھیاں آئیں ۔۔۔ بدلیاں برسیں
دب گئیں خاک کی تہیں، تہہ خاک
بہتی مٹی میں بہہ گئی مٹی
میرے نادیدہ پیشرو! تری قبر
کس جگہ تھی، یہ اب کسے معلوم
یوں ہی، اپنے قیاس سے میں نے
ریت کی اک شکن کو پہچانا
مٹتی سطحوں پہ ایک ڈوبتی سطر
اک خطِ خاک جس پہ کچھ کنکر
میں نے پہلے تو چن کے رکھ بھی دیے
پھر خیال آیا ۔۔۔ اب یہ کون کہے
قبرتیری یہیں کہیں تھی ۔۔۔ مگر
تھی کہاں؟۔۔۔ شاید اس جگہ تو نہ تھی
کچھ جو سوچا ۔۔۔ نہ جانے کیا سوچا
ذہن میں لاکھ الجھ گئے خاکے
میں نے کنکر وہ سب بکھیر دیے !
بے نشاں خاک میرے سامنے اب
ان جہانوں کا ایک حصہ ہے
جن کے بھیدوں کی تھاہ میں تو ہے
جن کے سایوں کی قبر میں میں ہوں!
 
فہرست