ایک شبیہ

مجید امجد


کچھ دنوں سے قریبِ دل ہے وہ دن
جب، اچانک، اسی جگہ، اک شکل
میری آنکھوں میں مسکرائی تھی
اک پل کے لیے تو ایک وہ شکل
جانے کیا کچھ تھی، جھوٹ بھی، سچ بھی
شاید اک بھول، شاید اک پہچان
کچھ دنوں سے تو جان بوجھ کے اب
یہ سمجھنے لگا ہوں، میں ہی تو ہوں
جس کی خاطر یہ عکس ابھرا تھا
کچھ دنوں سے تو اب میں دانستہ
اس گماں کا فریب کھاتا ہوں
روز، اک شکل اس دوراہے پر
اب مرا انتظار کرتی ہے
ایک دیوار سے لگی، ہر صبح
ٹکٹکی باندھے ، نیم رخ، یک سو
اب مرا انتظار کرتی ہے
میں گزرتا ہوں، مجھ کو دیکھتی ہے
میں نہیں دیکھتا، وہ دیکھتی ہے
اس کے چہرے کی ساخت ۔۔۔ ساعتِ دید
زرد ہونٹوں کی پتریاں ۔۔۔ پیتل
سرخ آنکھوں کی ٹکڑیاں ۔۔۔ قرمز
روغنی دھوپ میں دھنسے ہوئے پاؤں
منتظر منتظر، اداس اداس
کبھی پل بھر کو ایک یہ چہرہ
جانے کیا کچھ تھا، لیکن اب تو مجھے
اپنی یہ بھول بھولتی ہی نہیں
ایک دن یہ شبیہ دیکھی تھی
کچھ دنوں سے قریبِ دل ہے وہ دن
کچھ دنوں سے تو بیتتے ہوئے دن
اسی اک دن میں ڈھلتے جاتے ہیں
دن گزرتے ہیں اب تو یوں جیسے
عمر اسی دن کا ایک حصہ ہے
عمر گزری ۔۔۔ یہ دن نہیں گزرا
جس طرف جاؤں، جس طرف دیکھوں
مجھ سے اوجھل بھی، میرے سامنے بھی
شکل اک ٹین کے ورق پہ وہی
شکل اک دل کے چوکھٹے میں وہی
 
فہرست