ایک فلم دیکھ کر

مجید امجد


دھیرے دھیرے ساز بجے
اس کے انگ انگ نے اک انگڑائی لی
ابھری رقص کی لے
لچکی اس کے بدن کی ڈھال
اک اک تیز نرت کے ساتھ
ناچتے جسم سے اک اک بندھن اترا، اک اک تکمہ ٹوٹا، پلو ڈھلک ڈھلک کر رکے ، گرے
اور پھر ۔۔۔ سامنے ، اک
جگ مگ جسم
گرتی مڑتی، ٹوٹ ٹوٹ کے جڑتی ۔۔۔ مرمر کی ڈھلوان
قاشیں، رگیں، خلیے ، ماس، مسام
سب کچھ، ایک تھرکتے بہتے عکس کا جزو
سب کچھ، جسم کی باغی سلطنتوں کی ایک عجب دنیا
گول سڈول کرے ، ان مول زمینیں، ساحل، جھرنے ، دھوپ
چاندنی، محمل، پھول
سب کچھ، رقص کے روپ میں ڈھلتا، ٹک ٹک چلتا، اک متحرک عکس
سب کچھ، پاس بلاتے ، پیاس بڑھاتے ارمانوں کے سراب!
آج اک دوست نے پاس بلا کر چائے پلا کر مجھ سے مری اک بوسیدہ سی نظم سنی
اور پھر اس کے بعد یہ فلم!
باہر نکلا تو سنسان سڑک تھی، شبِ خزاں تھی
ٹھنڈی تیز ہوا میں ننگی شاخیں ناچ رہی تھیں
میں بھی، میری نظم بھی، دونوں تھر تھر کانپ رہے تھے ، اتنے لبادوں میں
 
فہرست