یہ سرسبز پیڑوں کے سائے

مجید امجد


سیہ سنگ، تپتی سڑک پر یہ سرسبز پیڑوں کے سائے
ہوا اس جگہ کتنی ٹھنڈی ہے ، جھونکوں پہ سایوں کے دھبے بھی ہیں کتنے ٹھنڈے
درختوں کے اس جھنڈ سے جب میں گزرا
خنک چھاؤں کی ٹکڑیاں سی مرے جسم پر تھرتھرائیں
مرے جسم سے گر کے ٹوٹیں
عجب اک اچھوتی سی ٹھنڈک مری روح میں سرسرائی
سہانے دنوں کی انوکھی سی ٹھنڈک
وہ دن کتنے اچھے تھے جب ایک بھیگی ہوئی سانس کی ریشمیں رو
مرے دل کی چنگاریوں کے پسینے سے مس تھی
وہ مبہم سی خوشیاں جو چھپ چھپ کے ہر موڑ پر، نت نئے بھیس میں
آ کے روحوں سے ملتی ہیں، مل کر بچھڑتی ہیں، جیسے
ہواؤں پہ سایوں کے چھدرے سے دھبے
فضاؤں میں صدہا سفید و سیہ آفتابوں کے بکھرے سے ریزے
سرِ خاک بے ربط، بے سطر، خاکے
یہ سب کچھ بس اک دو قدم تک۔۔۔
پھر آگے وہی دھوپ، شاداب دردوں کی جانب ہمکتی ہوئی
سنگریزوں پہ بہتی ہوئی دھوپ
حدِ عدم تک!
 
فہرست