صدائے رفتگاں

مجید امجد


یہ واقعے کسی تقویم میں نہ تھے مذکور
یہ لہریں جو ابھی ان ساحلوں سے گزری ہیں
یہ سانحے تو ہمارے دلوں سے ابھرے تھے
ہماری خاک سے یہ قصہ سن سکو تو سنو!
بروزِ جنگ، صفِ دشمنان میں سب کچھ تھا
ہمارے پاس تو کچھ بھی نہ تھا، نہ مکر، نہ حرص
بس ایک سادہ سی دلدادگی تھی اپنی متاع
ابد کا چہرہ اسی اک سپر کی اوٹ میں تھا
تمہارے پاس تو سب کچھ ہے ، وہ زمانہ بھی ہے
ہمارے صدق نے اک عکس جس کا دیکھا تھا
تمہارے حصے میں مٹی کی وہ مرادیں بھی ہیں
ہمارے دل نے کبھی جن کی آرزو بھی نہ کی
یہ سیلِ خاک، یہ دنیا، کسے خبر کہ یہاں
ہماری خاک بھی اب زیر خاک ہے کہ نہیں
سنو، سنو، یہ صدا کس کی ہے ، کبھی تو سنو
ہمیں تو ہیں جو شبوں کو تمہاری بستی میں
دلوں کے بند کواڑوں کو کھٹکھٹاتے ہیں
’’یقین مرگ کی نیندوں سے کھیلتی روحو
ہماری زیست کا اک دن کبھی بسر تو کرو! ‘‘
 
فہرست