ایکسیڈنٹ

مجید امجد


مجھ سے روز یہی کہتا ہے پکی سڑک پر وہ کالا سا داغ جو کچھ دن پہلے
سرخ لہو کا تھا اک چھینٹا، چکنا، گیلا، چمکیلا چمکیلا
مٹی اس پہ گری اور میلی سی اک پپڑی اس پر سے اتری، اور پھر سیندھوری سا اک خاکہ ابھرا
جو اب پکی سڑک پر کالا سا دھبا ہے ، پسی ہوئی بجری میں جذب اور جامد ۔۔۔ ان مٹ!
مجھ سے روز یہی کہتا ہے ، پکی سڑک پر مسلا ہوا وہ داغ لہو کا
’’میں نے تو پہلی بار اس دن
اپنی رنگ برنگی قاشوں والی گیند کے پیچھے
یونہی ذرا اک جست بھری تھی
ابھی تو میرا روغن بھی کچا تھا
اس مٹی پر مجھ کو انڈیل دیا یوں کس نے
اوں اوں ۔۔۔ میں نہیں مٹتا، میں تو ہوں، اب بھی ہوں‘‘
میں یہ سن کر ڈر جاتا ہوں
کالی بجری کے روغن میں جینے والے اس معصوم لہو کی کون سنے گا؟
ممتا بک بھی چکی ہے چند ٹکوں میں
قانون آنکھیں میچے ہوئے ہے
قاتل پہیے بے پہرا ہیں
 
فہرست