کوہِ بلند

مجید امجد


تو ہے لاکھوں کنکریوں کے بہم پیوست دلوں کا طلسم
تیرے لیے ہیں ٹھنڈی ہوائیں ان بے داغ دیاروں کی
جن پر پیلے ، سرخ، سنہری دنوں کی حکومت ہے
ایک یہی رفعت
ترے وجود کی قدر بھی ہے اور قوت بھی
تیرا وجود جو اس پاتال سے لے کر اوپر کی ان نیلی حدوں تک ہے
تو اس اونچی مسند پر سے جھک کر دیکھ نہیں سکتا
لیکن اس پاتال کے پاس جہاں میں ہوں
بڑا ہی گدلا اور کٹیلا ۔۔۔ کالی مٹی والا پانی ہے
زہرکدوں سے آنے والی ندیوں کا پانی
جس کی دھار تری پتھریلی دیواروں سے جب ٹکراتی ہے
تو میرے سینے میں دل کی ٹوٹی کنکری ڈوبنے لگتی ہے
اے رے اونچی مسند والے پہاڑ!
کبھی تو اپنی خاطر میری سمت بھی جھک کر دیکھ
 
فہرست