ڈر کاہے کا

مجید امجد


ڈر کاہے کا
جتنا زور تمہارے خیال کی رو سے تمہارے بدن میں ہے وہ سارا زور لگا کر
(اور تمہاری صحت بھی تو خیر سے امڈی پڑتی ہے نا)
اپنے سارے بدن کا زور لگا کر
چھینو۔۔۔
اس سے ، حصہ اس کے روزینے کا
اس سے ، ہرعکس اس کے آئینے کا
سب سے ، حق جینے کا
ڈر کاہے کا
گرجو! اور کالے رسوں کی گرہیں کھل جائیں گی
بپھرو! اور جابر ہاتھوں کی ریکھائیں گھل گھل جائیں گی
جھپٹو! اور سب قدریں اک میزان میں تل جائیں گی
یوں بھی نہ مقصد حاصل ہو تو پھر کیا
دیکھو، تمہارے گٹھیلے جثے میں ہے ذہن کی جتنی طاقت، اس کو کام میں لاؤ
اس اک حرف کو دیکھو، شکل ہے جس کی اک زنجیر کی صورت
بھرے کٹہرے میں تم میز پہ مکہ مار کے کہہ دو
’’یہ اک حرف تو اس پستک میں نہیں کہیں بھی۔۔۔
پستک جس کے سب حرف اور سب سطریں سیدھی سیدھی ہیں‘‘
تم دیکھو گے ، ترازو کا وہ پلڑا جس میں تم ہو، تمہاری جانب جھک جائے گا
رہ گئی اک یہ مقدس مٹی ۔۔۔ ہمیں تو ہیں اس کے ریزہ چیں
ہم اس کی خاطر جی لیں گے ، ہم اس کی خاطر مر لیں گے
 
فہرست