کمائی

مجید امجد


بندے ، جب مٹی کے اندر بھر جاتا ہے
لہو کا دھارا …
پھر جب آنکھیں روح کی ٹھنڈی سطح کو چھو کر دیکھتی ہیں دنیا کو
پھر جب یوں لگتا ہے جیسے
اس پنڈے میں کھلی ہے سارے دیس کی سرسوں
پھر جب بانہیں ٹیڑھی ہو کر جھولتی ہیں چلنے میں
پھرجب نفرت ایک ادھورے پیارے دیکھ کے ، ہنستی ہے ان پر، وہ جن
کی سچی سوچیں چلہ کش رہتی ہیں
پھر جب دل کہتا ہے : ’’اے رے کرجوے ! آج ہمارے لیے تم
کتنے کرمنڈل بھیجو گے امرت جل کے ؟‘‘
تب ایسے میں، کون یہ جانے ، بندے
کون اس بھید کو پائے بندے !
کون دیکھے لہو کی لہر کا سب روغن تو
اس بھوجن کا رس ہے
وہ بھوجن جو کوڑا کرکٹ ہے اور جس کو کتے بھی نہیں کھاتے
 
فہرست