آواز کا امرت

مجید امجد


اک اک روح کے آگے اک دیوار ہے اونچی گلے گلے تک
اک دیوار ہے رمزِ دروں کی
اس دیوار کے اندر کی جانب جتنا کچھ بھی ہوتا ہے
جس کے پاس خزانہ، اک دردانہ، یا اک تال مکھانہ
نقدِ باطن یا کم از کم ۔۔۔ آب و دانہ
جتنا کچھ بھی پاس ہو اتنی ہی دیوار یہ موٹی ہوتی ہے اور اس دوری کے باعث
اتنی ہی اس روح کی بات ذرا گھمبیر اور گہری ہو جاتی ہے
اپنے بوجھ سے بوجھل ہو جاتی ہے
دیر سے سننے میں آتی ہے
اپنے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے ، روح نہ اس کا کوئی دھندا
اپنے پاس توصرف اک یہ آواز ہے جس کے آگے کوئی بھی دیوار نہیں ہے
سن سے تمہارے پاس پہنچ جاتی ہے
اس آواز میں رمزِ دروں کے سارے غیرمقطر زہر ہیں، اس کا برا نہ مانو
کبھی کبھی جی میں آئے تو، سن لو
چن لو
رکھ لو
چکھ لو
 
فہرست